—————————-(1)———————————
روز و شب جوش پہ رحمت کا ہے دریا تیرا
صدقے اس شانِ سخاوت پہ یہ منگتا تیرا
ہاتھ اٹھے بھی نہ تھے اور مِل گیا صدقہ تیرا
واہ کیا جود و کرم ہے شہہ بطحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگے والا تیرا
—————————-(2)———————————
وہ حقیقت تری جبریل جسے نہ جانیں
پھر بھلا کیسے کوئی رتبہ تمہارا جانیں
بس اُسے جانے خدا ہم تو یہ کہنا جانیں
فرش والے تیری شوکت کا عُلو کیا جانیں
خسروا عرش پہ اُرتا ہے پھریر تیرا
—————————-(3)———————————
نہ کوئی تجھ سا سخی ہے نہ کوئی مجھ سا غریب
چشمِ بیدار جگا دے مرے خوابیدہ نصیب
رب تو بس اُس کو ملے تجھ سے جو ہو جائے قریب
میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب
یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا
—————————-(4)———————————
چاندنی رات میں جابر کا نظارہ دیکھیں
چاند کو وہ کبھی آقا ترا چہرا دیکھیں
کہہ اٹھے وہ بھی تو آخر یہی جملہ دیکھیں
تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیں
کون نظروں پہ چڑھے دیکھ کے تلوا تیرا
—————————-(5)———————————
تیری خیرات کا اک زرّہ کرے ہم کو نہال
کس طرح جائیں کسی اور کے در بہرِ سوال
سلسلہ اپنی عطاؤں کا یونہی رکھنا بحال
تیرے ٹکڑوں سے پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال
جھڑکیاں کھائے کہاں چھوڑ کے صدقہ تیرا
—————————-(6)———————————
گر گناہوں کے سبب تم نے دیا در سے نکال
اس تصور سے ہی ہو جائیں تیرے بندے نِڈھال
کون رکھے گا تیری طرح فقیروں کا خیال
تیرے ٹکروں سے پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال
جھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کے صدقہ تیرا
—————————-(7)———————————
وُسعتیں دیں ترے دامن کو خدا نے اتنی
ہے اسی بات کی محشر میں شہا دھوم مچنی
کیوں کروں فکر ترے ہوتے میں اتنی اپنی
ایک میں کیا مرے عصیاں کی حقیقت کتنی
مجھ سے سو لاکھ کو کافی ہے اِشارہ تیرا
—————————-(8)———————————
از پئے خالق و رحمٰن و ولی کر دے کہ ہے
از پئے فاطمہ حسنین و علی کر دے کہ ہے
تو ہے مختار پئے غوث جلی کر دے کہ ہے
میری تقدیر بری ہو تو بھلی کر دے کہ ہے
محو و اثبات کے دفتر پہ قبضہ تیرا
—————————-(9)———————————
دولت عشق سے سے دل میرا غنی کر دے کہ ہے
گم رہوں تجھ میں مری ختم خودی کر دے کہ ہے
مجھ گنہگار پہ رحمت کی جھڑی کر دے کہ ہے
میری تقریر بری ہو تو بھلی کر دے کہ ہے
محو و اثبات کے دفتر پہ کڑوڑا تیرا
—————————-(10)———————————
ہیں جو بے زر میری سرکار انہیں دے کہ ہے
بیٹیاں جن کی کنواری ہیں اُنہیں بر دے کہ ہے
چھت نہیں جن کو میسر اُنہیں اک گھر دے کہ ہے
میری تقدیر بری ہو تو بھلی کر دے کہ ہے
محو و اثبات کے دفتر پہ کڑوڑا تیرا
—————————-(11)———————————
کعبہ جاں کا ملے حشر میں جب مجھ کو غلاف
ساتھ ماں باپ ہوں احباب بھی ہوں اور اَخلاف
اس عنایت پہ یہی شور اٹھے چو اطراف
چور حکام سے چھپا کرتے ہیں یاں اس کے خلاف
تیرے دامن میں چھپے چور انوکھا تیرا
—————————-(12)———————————
واہ کیا شان بڑھائی ہے خدا نے تیری
اَوَلین آخریں سب حمد کریں گے تیری
دوڑیں سب جام بَکف بٹنے لگے مَے تیری
تیرے صدقہ مجھے اک بوند بہت ہے تیری
جس دن اچھوں کو ملے جام چھلکتا تیرا
—————————-(13)———————————
میرے عیسیٰ تیرے بیمار پہ کیسی گزرے
بےنوا، زار پہ لاچار پہ کیسی گزرے
نزع کے وقت گنہگار پہ کیسی گزرے
دور کیا جانیے بدکار پہ کیسی گزرے
تیرے ہی در پہ مرے بیکس و تنہا تیرا
—————————-(14)———————————
گر طلب ہے کہ بَر آئیں تری حاجاتِ جمیع
کر عبید اپنے رضا کی زرا تقلیدِ وکیع
پیش کر تو بھی یہی قول بندرگاہ وقیع
تیری سرکار میں لاتا ہے رضا اس کو شفیع
جو میرا غوث ہے اور لاڈلا بیٹا تیرا