عرش کی عقل دنگ ہے چرخ میں آسمان ہے
جانِ مُراد اب کدھر ہائے تِرا مکان ہے

بزمِ ثنائے زُلف میں میری عروسِ فکر کو
ساری بہارِ ہشت خلد چھوٹا سا عِطر دان ہے

عرش پہ جا کے مرغِ عقل تھک کے گِراغش آگیا
اور ابھی منزلوں پَرے پہلا ہی آستان ہے

عرش پہ تازہ چھیڑ چھاڑ فرش میں طرفہ دُھوم دَھام
کان جِدھر لگائیے تیری ہی داستان ہے

اِک ترے رُخ کی روشنی چین ہے دو جَہان کی
اِنس کا اُنس اُسی سے ہے جان کی وہ ہی جان ہے

وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے

گود میں عالمِ شباب حالِ شباب کچھ نہ پوچھ!
گلبنِ باغِ نور کی اور ہی کچھ اُٹھان ہے

تجھ سا سِیاہ کار کون اُن سا شفیع ہے کہاں
پھر وہ تجھی کو بُھول جائیں دِل یہ تِرا گمان ہے

پیشِ نظر وہ نو بہار سجدے کو دِل ہے بے قرار
روکیے سر کو روکیے ہاں یہی امتحان ہے

شانِ خدا نہ ساتھ دے اُن کے خرام کا وہ باز
سدرہ سے تا زمیں جسے نرم سی اِک اُڑان ہے

بارِ جلال اُٹھا لیا گرچہ کلیجا شق ہُوا
یُوں تو یہ ماہِ سبزہ رنگ نظروں میں دھان پان ہے

خوف نہ رکھ رضاؔ ذرا تو تو ہے عَبدِ مصطفٰی
تیرے لئے اَمان ہے تیرے لئے اَمان ہے


عرش کی عقل دنگ ہے چرخ میں آسمان ہے

عرش کی عقل دنگ ہے چرخ میں آسمان ہے


حق پسند و حق نوا و حق نما ملتا نہیں

سرور کہوں کہ مالک و مَولیٰ کہوں تجھے

راہ پُرخار ہے کیا ہونا ہے

آنکھیں رو رو کے سُجانے والے

بُلا لو پھر مجھے، اے شاہِ بحر و بر! مدینے میں

رُخ سے پردہ اب اپنے ہٹا دو

پیشِ حق مژدہ شفاعت کا سُناتے جائیں گے

لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب

اللہ نے بخشا ہے شرف تجھ کو یگانہ، حسنین کے نانا

بڑی امید ہے سرکار قدموں میں بلائیں گے ۔ نیر سہروردی