ج اشک میرے نعت سنائیں تو عجب کیا
سن کر وہ مجھے پاس بلائیں تو عجب کیا
ان پر تو گناہگار کا سب حال کھلا ہے
اس پر وہ دامن میں چھپائیں تو عجب کیا
منہ ڈھانپ کے رکھنا کہ گناہگار بہت ہوں
میّت کو میری دیکھنے آئیں تو عجب کیا
نہ زادِ سفر ہے نہ کام بھلے ہیں
پھر بھی ہمیں سرکار بلائیں تو عجب کیا
دیدار کے قابل تو نہیں چشمِ تمنا
لیکن وہ کبھی خواب میں آئیں تو عجب کیا
میں ایسا خطاوار ہوں کوئی حد نہیں جس کی
پھر بھی میرے عیبوں کو چھپائیں تو عجب کیا
وہ حسنِ دو عالم ہیں ادیب ان کے قدم سے
صحرا میں اگر پھول کھلائیں تو عجب کیا
از۔ ادیب
اے عشقِ نبی میرے دل میں بھی سما جانا
پُل سے اُتارو راہ گزر کو خبر نہ ہو
یاد میں جس کی نہیں ہوش تن و جاں ہم کو
بے خود کیے دیتے ہیں انداز حجابانہ
عرش کی عقل دنگ ہے چرخ میں آسمان ہے
سرور کہوں کہ مالک و مَولیٰ کہوں تجھے
دیوار و در کے بوسے لوں گا مچل مچل کے

