یوم حضرت سیدنا امام جعفر صادق رضی ﷲ تعالیٰ عنہ

حضرت سیدنا امام جعفر صادق رضی ﷲ تعالیٰ عن

———————-مختصر سیرت امام جعفر صادق——————-

حضرت سیدنا امام جعفر صادق رضی ﷲ تعالیٰ عن

 

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

 

نام و نسب

آپ کا نام: حضرت جعفرِ طیار رضی اللہ عنہ کی نسبت سے “جعفر ” رکھا گیا۔

کنیت: ابو عبداللہ، ابو اسماعیل اور ابو موسیٰ ہے۔

لقب: صادق ،فاضل، طاہر، اور کامل ہے۔

سلسلہ نسب اسطرح ہے: امام جعفر صادق بن امام محمد باقر بن علی امام زین العابدین بن سید الشہداء امام حسین بن حضرت علی المرتضیٰ (رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین )۔

 

آپکی والدہ محترمہ کا اسمِ گرامی امِ فروہ بنت قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہے۔

یعنی آپ والدہ کی طرف سے “صدیقی” اور والد کی طرف سے “علوی فاطمی سید” ہیں۔ آپ کے نانا سیدنا قاسم بن محمد مدینہ منورہ کے سات فقہا میں سے تھے۔ آپ کی والدہ محترمہ سیدہ ام فروہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پڑپوتی بھی تھیں اور پڑنواسی بھی۔ اس لیے آپ فرمایا کرتے تھے “ولدنی ابوبکر مرتین” یعنی مجھے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے دوہری ولادت ہونے کا شرف حاصل ہے۔

 

تاریخِ ولادت: بروز جمعۃ المبارک،17/ربیع الاول،80 ھ، مدینۃ الرسولﷺ کی پر نور فضا میں ولادت ہوئی۔

 

تحصیلِ علم: آپ نے خاندانی روایات کی مطابق ظاہر و باطنی علوم کی تحصیل و تکمیل اپنے والدِ گرامی سیدنا امام محمد باقر رضی اللہ عنہ اور اپنے دادا گرامی سیدنا امام زین العابدین رضی اللہ عنہ اور اپنے نانا جان فقیہ ِ اعظم مدینۃ المنورہ سیدنا امام قاسم بن محمد سے حاصل کی۔ ان کے علاوہ صحابیِ رسول ﷺ حضرت سہل بن سعدد رضی اللہ عنہ اور حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے بھی تحصیلِ علم کیا۔

بیعت و خلافت: اپنے والدِ گرامی سے روحانی تربیت حاصل کی۔ ان کے علاوہ اپنے نانا جان فقیہ ِ اعظم مدینۃ المنورہ ،سیدنا امام قاسم بن محمد سے بھی اکتساب فیض کیا۔ امام قاسم کو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے فیض ملا ہے اور حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو آپﷺ کے فیضِ صحبت کے علاوہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بھی فیض حاصل ہوا۔

سیرت و خصائص: ملتِ نبوی کے سلطان، دینِ مصطفیٰ ﷺ کے پاسبان ،علومِ نبویہ کے مظہر و وارثِ کامل ،اہل ِ حق کے امام، اہلِ ذوق کے پیشرو، صاحبانِ عشق و محبت کے پیشوا، عابدوں کے مقدّم، زاہدوں کے مکرم ،خاندانِ نبوت کے چشم و چراغ حضرت سید نا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ۔

آپ کے کمالات اس قدر ہیں کہ دائرہ تحریر سے باہر ہیں۔ اس سے بڑھ کر اور کیا کمال ہوسکتا ہے کہ سراج الامہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ آپ کے پاس دو سال رہ کر درجٔہ کمال تک پہنچ گئے اور نعرہ لگایا!

“لولا السنتان لھلک النعمان

(اگر مجھے امام موصوف کی صحبت کے دو سال نہ ملتے تو میں ہلاک ہوجاتا)۔

 

عبید بن رافع فرماتے ہیں: کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی زیارت کی ہے۔ آپ درمیانہ قد، خوبصورت جسم، اور چہرہ ایسا حسین کہ جیسے سورج آپ کے چہرہ انور میں گردش کر رہا ہو۔کا لی سیاہ زلفیں ،اور ان زلفوں میں چہرہ ایسے نظر آرہا تھا جیسے اندھیری میں رات میں چودہویں کا چاند نظر آتا ہے۔

 

عمرو بن مقدام رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

کہ جب میں امام جعفر صادِق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھتا تھا، تو آپکے چہرہ انور کی زیارت کرتے ہی یہ خیال آتا کہ اس نورانی شخصیت کا تعلق انبیاء کے پاک گھرانے سے ہے۔

 

سراج الامہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

کہ میں نے اہل بیت میں امام جعفر بن محمد سے بڑھ کر کسی کو فقیہ نہیں دیکھا۔

 

مشہور محدث حضرت سفیان ثوری فرماتے ہیں:

کہ میں نےآپ جیسا عالم ،زاہد، حسین ،اور سخی نہیں دیکھا۔

 

حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

کہ میں حضرت امام جعفر صادق کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا۔ آپ کی ذات اخلاق و عاداتِ مصطفیٰ ﷺ اور حسنِ مصطفیٰ ﷺ کا حسین امتزاج تھی۔ اور تمام علوم میں درجہ کمال حاصل تھا۔ تمام نسبتوں اور فضیلتوں کے باوجود آپ سب سے زیادہ خوفِ خدا کے مالک تھے۔

 

ایک مرتبہ حضرت داؤد طائی نے حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا:

اے فرزند رسول ﷺ! مجھے نصیحت فرمائیں کیونکہ میرا دل سیاہ ہوگیا ہے۔

فرمایا: یا ابا سلیمان! آپ تو زاہدِ زمانہ ہیں۔ آپ کو میری نصیحت کی کیا ضرورت ہے۔ داؤد نے عرض کیا اے فرزند رسولﷺ! آپ کو سب پر فضیلت حاصل ہے۔ اس لیے آپ پر واجب ہے کہ سب کو نصیحت کریں۔ فرمایا: یا ابا سلیمان! مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں قیامت کے دن میرے جد بزرگوار انبیاء کے سردار ﷺ میرا دامن پکڑیں اور یوں فرمادیں کہ میرا حق متابعت کیوں نہ ادا کیا: کیونکہ یہ کام نسب کی شرافت پر موقوف نہیں۔ بلکہ درگاہ ِرب العزت میں عمل کی پسندیدگی معتبر ہے۔

یہ سن کر داؤد بہت روئے۔ اور بارگاہ الٰہی میں عرض کی: کہ اے پروردگار! جس شخص کی سرشت نبوت کے آب و گل سے ہے، اور جس کی طبیعت کی ترکیب آثارِ رسالت ﷺسے ہوئی ہے، اور جس کے جدِ بزرگوار رسول کریم ﷺ ہیں، اور ماں حضرت فاطمہ بتول ہیں۔ جب وہ ایسی حیرانی میں ہے تو داؤد کس شمار میں ہے ۔

 

وصال: آپ کا وصال 15/رجب 148ھ ،بمطابق 765ء مدینۃ منورہ میں ہوئی ،اور جنت البقیع میں قبہ اہلبیت میں مدفون ہوئے۔