✍️ سوانح حیات مام بخاری رضی اللہ عنہ✍️

*سلسلۂ نسب*
ابو عبداﷲ محمد (امام بخاری ؒ) بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ بن بردزبہ البخاری الجعفی۔ امام بخاری ؒ کے والد حضرت اسماعیل ؒ کو جلیل القدر علمااور امام مالک رحمتہ اﷲ علیہ کی شاگردی کا بھی شرف حاصل تھا

*پیدائش* امام بخاریؒ 13 شوال 194؁ھ (20 جولائی 810؁ئ) کو بعد نمازِ جمعہ بخارا میں پیدا ہوئے۔ امام بخاری ؒ ابھی کم سن ہی تھے کہ شفیق باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور تعلیم و تربیت کیلئے صرف والدہ کاہی سہارا باقی رہ گیا۔ شفیق باپ کے ا ٹھ جانے کے بعد ماں نے امام بخاری ؒ کی پرورش شروع کی اور تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا۔
امام بخاری نے ابھی اچھی طرح آنکھیں کھولی بھی نہ تھیں کہ بینائی جاتی رہی۔ اس المناک سانحہ سے والدہ کو شدید صدمہ ہوا
امام بخاری رحمتہ اﷲ علیہ کو اپنے والد کی میراث سے کافی دولت ملی تھی۔ آپ اس سے تجارت کیا کرتے تھے۔ اس آسودہ حالی سے آپ نے کبھی اپنے عیش کا اہتمام نہیں کیا جو کچھ آمدنی ہوتی طلب علم کیلئے صرف کرتے۔ غریب اور نادار طلبا کی امداد کرتے، غریبوں اور مسکینوں کی مشکلات میں ہاتھ بٹاتے۔ ہر قسم کے معاملات میں آپ رحمہ اللہ علیہ بے حد احتیاط برتتے تھے۔
ایک دفعہ امام بخاری بیمار ہوئے۔ ان کا قارورہ طبیبوں کو چیک کرایا گیا تو انہوں نے کہا یہ قارورہ تو اس شخص کا ہے جس نے کبھی سالن نہ کھایا ہو۔ پھر امام بخاری ؒ نے ان کی تصدیق کی اور کہا کہ چالیس سال سے میں نے سالن نہیں کھایا طبیبوں نے کہا اب آپ کی بیماری کا علاج یہ ہے کہ سالن کھایا کریں۔ امام بخاری ؒ نے قبول نہ فرمایا۔ بڑے اصرار سے یہ قبول کیا کہ روٹی کے ساتھ کچھ کھجور کھا لیا کریں گے۔ محمد بن منصور فرماتے ہیں ہم ابو عبداﷲ بخاری ؒکی مجلس میں تھے ایک شخص نے آپ کی داڑھی میں سے کچھ کچرا نکالا اور زمین پر ڈال دیا۔ امام بخاری نے لوگوں کو جب غافل پایا تو اس کو اٹھا کر اپنی جیب میں رکھ لیا۔ جب مسجد سے باہر نکلے تو اس کو پھینک دیا (گویا مسجد کا اتنا احترام کیا کرتے تھے
*امام بخاری کی ذہانت* مالک لم یزل نےاپ کو غیر معمولی حافظہ اور ذہن عطا کیا تھا۔ ایک مرتبہ جب اپ بغداد آئے محدثین جمع ہوئے اور آپکا امتحان لینا چاہا،مگر امتحان کی ترتیب یہ رکھی کہ دس آدمیوں نے دس دس حدیثیں لے کر ان کے سامنے پیش کیں، ان احادیث کے متن اور اسناد کو بدلا گیا، متن ایک حدیث کا اور سند دوسری حدیث کی۔ امام بخاری جب حدیث سنتے اور کہتے، لا ادری یعنی مجھے اس حدیث کے بارے میں علم نہیں جب سارے محدثین اپنی اپنی دس دس حدیثیں سنا چکیں اور ہر ایک کے جواب میں امام بخاری ؒ نے کہا کہ لا ادری مجھے اس کا علم نہیں، تو سارے لوگ ان سے بدظن ہوئے اور کہنے لگے کہ یہ کیسے امام ہیں کہ سو احادیث میں سے ایک حدیث بھی نہیں جانتے۔
*امام بخاری کا جواب*
بعد ازاں
امام بخاری ؒ پہلے شخص سے مخاطب ہو کر کہنے لگے تم نے پہلی حدیث یوں سنائی تھی اور پصحیح حدیث یوں ہے دو سری حدیث کے بارے میں فرمایا کہ تم نے یہ حدیث اس طرح سنائی تھی جب کہ صحیح یہ ہے اور پھر صحیح حدیث بیان کی، المختصر یہ کہ امام بخاری نے دس کے دس آدمیوں کی مکمل حدیثیں پہلے ان کے ردّو بدل کے ساتھ سنائیں اور پھر صحیح اسناد کے ساتھ حدیثیں سنائیں۔
اس پر مجمع میں سارے لوگ حیران رہ گئے

*کراماتِ امام بخاری*
بچپن میں امام بخاری علیہ الرحمہ کی بصارت جاتی رہی تھی۔ والدہ ماجدہ کے لئے یہ صدمہ کم نہ تھا طبیب علاج سے عاجز آ گئے۔ والدہ ماجدہ اپنے یتیم بچے کی اس حالت پر رات دن دعا میں مصروف رہتیں اور خوب رو رو کر بارگاہ صمدیت میں دست بدعا ہوتیں
بالآخر قسمت رنگ لائی ایک روز خواب میں حضرت سیدنا خلیل اللہ ابراہیم علیہ السلام تشریف لائے اور بشارت دی کہ ”تمہارے رونے اور دعا کرنے سے اللہ پاک نے تمہارے بچے کی بینائی لوٹا دی ہے“ صبح ہوئی تو آپ کی آنکھیں بالکل درست تھیں۔ بعد ازاں اللہ پاک نے آپ کو اس قدر روشنی عطا فرمائی کہ تاریخ کبیر کا پورا مسودہ آپ نے چاندنی راتوں میں تحریر فرمایا۔اور یہ ایسا مشہور ہوا کہ اس پر ہزاروں علماء کرام و محدثین نے اپنے اپنے مقالات تحریر فرمائیں اور امت مسلمہ کے لئے ایک عظیم سرمایہ ثابت ہوا ۔۔وللہ الحمد

*علم حدیث کا سماع اور امام بخاری*
دس سال کی عمر میں حفظ حدیث کا شوق دامن گیر ہوگیا۔ چنانچہ مکتب سے نکل کر بخارا اور اس کے اطراف و اکناف میں محدثین کی مجالس حدیث میں شریک ہونا شروع کردیا۔ بخارا میں اس وقت
محمد بن سلام البیکندی محمد بن یوسف البیکندی،
عبداللہ بن محمد المسندی
ابراہیم بن اشعث اور
علامہ داخلی کے دروس کے حلقے قائم تھے۔ امام بخاری نے ان شیوخ و محدثین سے سماع حدیث کیا اور سب سے پہلا سماع علامہ داخلی سے کیا.

*علامہ داخلی اور امام بخاری کا دلچسپ واقعہ*

علامہ داخلی بخارا کے بڑے پایہ کے محدث تھے اور ان کی درسگاہ بڑی مشہور تھی، حسب معمول درس دے رہے تھے کہ انہوں نے ایک حدیث کی سند یوں بیان کی:
*سفیان عن أبي الزبیر عن إبراھیم* …
اس پر امام بخاری نے عرض کی ‘
‘ *إن أبا الزبیر لم یرو عن إبراهیم*
یعنی ابو زبیر نے ابرہیم سے روایت نہیں کی سند میں توھم ہے۔
اس پر علامہ پہلے تو برھم ہوئے مگر جب دوبارہ سنجیدگی سے وضاحت کی کہ اگر آپ کے پاس اصل ہے تو اس کی طرف رجوع کریں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے اصل کی طرف رجوع کیا تو معلوم ہوا کہ امام بخاری درست کہ رہے ہیں اور اپنی اس غلطی پر متنبہ ہوگئے اور امام بخاری سے سند دریافت کی۔ امام بخاری نے اصل سند بیان کی۔
*الزبیر وھو ابن عدي عن إبراھیم* تو اس کے مطابق استاذ نے اپنے اصل کو درست کرلیا ۔ امام بخاری کا بیان ہے کہ اس وقت میری عمر دس برس کی تھی۔
علامہ داخلی کے علاوہ دیگر شیوخ و محدثین سے بھی امام بخاری نے فنون حدیث کا وافر ذخیرہ جمع کیا، خاص طور پر علامہ محمد بن سلام جو بڑے پایہ کے محدث تھے اور وہ امام بخاری کی ذہانت و فطانت سےبہت متاثر تھے حتیٰ کہ امام بخاری کی موجودگی میں حدیث بیان کرنے سے خوف کھاتے۔ بعض شیوخ نے بیان کیا ہے کہ اس دور میں امام بخاری نے سولہ سال کی عمر تک ستر ہزار احادیث حفظ کرلی تھیں۔ماشا اللہ سبحان اللہ اس سے امام بخاری کے قوت حافظہ اور ذہانت کا پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امام بخاری کو کس قدر وسیع الذہن اور وسیع الحفظ سے مالا مال کیا تھا۔۔۔

جب امام بخاری سولہ سال کی عمر کو پہنچے اور بخارا اور اس کے اطراف و اکناف سے محدثین و شیوخ سے علم حدیث جمع کرلیا تو 210ھ میں اپنی والدہ محترمہ اور اپنے بھائی احمد بن اسماعیل کے ساتھ زیارت بیت اللہ شریف کے لئے ، حجاز مقدس کو روانہ ہوئے اور حج سے فراغت کے بعد والدہ محترمہ اور بھائی تو واپس چلے آئے اور امام بخاری طلب علم کے لیے حجاز ہی میں ٹھہر گئے۔

امام بخاری خود اپنے ایک مقالہ میں بیان کرتے ہیں کہ میں شام اور جزیرہ گیا اور دو مرتبہ مصر پہنچا اور چار مرتبہ بصرہ اور پورے چھ سال حجاز میں اقامت کی اور پھر محدثین خراسان کے ساتھ کتنی مرتبہ کوفہ اور بغداد میں پہنچا۔

امام بخاری کے زمانہ میں ہزاروں محقیقین و مصنفین و محدثین تھے اور ان کے بے شمار تلامذہ و شاگرد مگر جو مقبولیت اللہ تعالیٰ نے امام بخاری اور ان کی کتاب کو عطا کی وہ کسی اور میں نظر نہیں آتی اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے والد نے ہمیشہ اپنے بچے کے لئے پاکیزہ اور حلال روزی و غذا کا اہتمام کیا اور مشتبہ مال و غذا سے اپنی اولاد کو بچا کے رکھا
انہیں لقموں کا اثر ہی تھا کہ آپ کی ذات سے بڑے بڑے کارنامے روپزیر ہوئے صوفیا کرام فرماتے ہیں کہ اولاد کے درجات خواہ وہ ولایت کے ہوں یا علم و تحقیق کے یا کرامات و خرق عادات کے ان میں حلال لقمہ و روزی کا بڑا دخل ہے
*سوکھی روٹی اور دال ہو*
*مگر ضروری ہے کہ رزق حلال ہو*

*غیبت سے اجتناب*
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
*المسلم من سلم المسلم من لسانہ و یدہ* کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے
اس حدیث پاک کو سامنے رکھیں اور ایک نظر امام بخاری کے دور پر ڈالیں کہ جہاں لاکھوں لوگ آپ کے چاہنے والے اور مداح اور آپ کے علم و دانش سے واقف اور ہزاروں زبانیں آپ کی مدح میں رطب وہیں ہزاروں آپ کے مخالفین و حاسدین اس سورت میں انسان ہاتھ کی اذیت سے شاید بچ جائے مگر زبان کے اذیت (غیبت) سے نہیں بچ سکتا

امام بخاری کے زمانہ میں ہزاروں محقیقین و مصنفین و محدثین تھے اور ان کے بے شمار تلامذہ و شاگرد مگر جو مقبولیت اللہ تعالیٰ نے امام بخاری اور ان کی کتاب کو عطا کی وہ کسی اور میں نظر نہیں آتی اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے والد نے ہمیشہ اپنے بچے کے لئے پاکیزہ اور حلال روزی و غذا کا اہتمام کیا اور مشتبہ مال و غذا سے اپنی اولاد کو بچا کے رکھا
انہیں لقموں کا اثر ہی تھا کہ آپ کی ذات سے بڑے بڑے کارنامے روپزیر ہوئے صوفیا کرام فرماتے ہیں کہ اولاد کے درجات خواہ وہ ولایت کے ہوں یا علم و تحقیق کے یا کرامات و خرق عادات کے ان میں حلال لقمہ و روزی کا بڑا دخل ہے
*سوکھی روٹی اور دال ہو*
*مگر ضروری ہے کہ رزق حلال ہو*

*غیبت سے اجتناب*
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
*المسلم من سلم المسلم من لسانہ و یدہ* کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے
اس حدیث پاک کو سامنے رکھیں اور ایک نظر امام بخاری کے دور پر ڈالیں کہ جہاں لاکھوں لوگ آپ کے چاہنے والے اور مداح اور آپ کے علم و دانش سے واقف اور ہزاروں زبانیں آپ کی مدح میں رطب وہیں ہزاروں آپ کے مخالفین و حاسدین اس سورت میں انسان ہاتھ کی اذیت سے شاید بچ جائے مگر زبان کی اذیت (غیبت) سے نہیں بچ سکتا مگر امام بخاری کا یہ قول کہ *ما اغتبت أحدا منذ علمت أن الغیبة حرام، وفي روایة لأرجو أن ألقی اللہ ولا یحاسبني أني اغتبت أحدا* (ترجمہ)جب سے مجھے غیبت کے حرام ہونے کا پتا چلا تب سے میں نے کسی کی غیبت نہیں کی اور ایک روایت ہے کہ فرمایا مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ سے میں اس حالت میں ملوں گا کہ اللہ تعالیٰ غیبت کے سلسلہ میں مجھ سے حساب نہیں لے گا
آپ کی استقامت بلکہ کرامات ہے

*علمی سرمایہ کی حفاظت*
ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ امام بخاری دریائی سفر کررہے تھے اور ایک ہزار اشرفیاں اپ کے پاس تھیں، ایک شخص نے کمال نیاز مندی سے امام بخاری کا قرب حاصل کیا اور امام بخاری کو بھی اس پر اعتماد ہوگیا، اپنے احوال سے اس کو مطلع کیا یہ بھی بتادیا کہ میرے پاس ایک ہزار اشرفیاں ہیں، ایک صبح کو جب وہ شخص اٹھا تو اس نے چیخنا شروع کیا اور کہنے لگا کہ میری ایک ہزار اشرفیوں کی تھیلی غائب ہے اور اس پر خوب رویا چلایا چنانچہ جہاز والوں کی تلاشی شروع ہوئی، امام بخاری نے چپکے سے وہ اشرفیوں کی تھیلی دریا میں ڈال دی تلاشی کے باوجود وہ تھیلی دستیاب نہ ہوسکی تو لوگوں نے اسی کو ملامت کی،
سفر کے اختتام پر وہ شخص امام بخاری سے پوچھتا ہے کہ آپ کی وہ اشرفیاں کہاں گئیں؟جب کہ مجھے یقیں ہے کہ آپ کے پاس ضرور ایک ہزار اشرفیوں کی تھیلی تھی امام صاحب نے فرمایا: میں نے ان کو دریا میں ڈال دیا، کہنے لگا اتنی بڑی رقم کو آپ نے ضائع کردیا؟ فرمایا کہ میری زندگی کی اصل کمائی تو ثقاہت کی دولت ہے چند اشرفیوں کے عوض میں اس کو کیسے تباہ کرسکتا تھا(مقدمہ کشف الباری)
یعنی اگر وہ اشرفیاں میرے پاس سے ملتی جب کہ وہ میری ہی تھیں مگر اتنے سارے لوگوں میں کچھ تمہارا بھی یقیں کرتے اور مجھ پر چوری کا الزام لگتا جس نے میری ثقاہت اور روایت احادیث پر کہیں نہ کہیں چوٹ لگتی اور میرا اصل سرمایہ علم حدیث کمزور ہو جاتا۔۔۔۔۔
امام بخاری نے علمی وقار کی حفاظت کی خاطر اپنے کثیر مال کو ضائع کرنا پسند کیا، ثقاہت پر ادنیٰ آنچ آئے اور ان کی ثقاہت پر حرف گیری کی جائے، اسے برداشت نہیں کیا، آج انہیں کی کتاب پڑھ کر ہم عالم و محدث بن رہے ہیں ان کی روش اگر ہماری زندگی میں آ گئی تو ان شاء اللہ دولت دنیا رہے نہ رہے علم کی دولت کی کافی وافی ہوگی اس جہاں میں اور اس جہاں میں بھی ان شاءاللہ

*بِقَدْرِ الکَدِّ تُکْتَسَبُ المعالي – فَمَنْ طَلَبَ العُلٰی سَھِرَ اللَّیَالِيْ*
محنت کے مطابق بلند یاں نصیب ہوتی ہیں، اور جو بلندیاں چاہے وہ راتوں کو جاگا کرے،
*غازی ہو غزالی ہو رومی ہو کہ جامی*
*کچھ ہاتھ نہیں آتا ہے آہ سحر گاہی*
امام محمد بن ابی حاتم بیان کرتے ہیں کہ سفر کے دوران امام بخاری کے ساتھ ایک کمرہ میں ہوتا آپ پندرہ بیس مرتبہ رات میں اٹھتے اور ہر بار چراغ جلا کر احادیث پر نشان لگاتے اور آخری حصہ میں نماز تہجد پڑھتے مگر مجھے کبھی نہیں اٹھاتے ایک بار میں نے عرض کی حضور آپ مجھ کو جگا دیتے اچھا ہوتا آپ نے فرمایا تم خوب جوان ہو میں تمہاری نیند خراب کرنا نہیں چاہتا

*امام بخاری اور اقوال شیوخ و محدثین*
اما ابن حجر عسقلانی نے فرمایا
*کان قلیل الاکل جدا*
آپ کی خوراک بہت کم تھی آپ نے کئی سال تک سالن نہیں کھایا

*تاج الدین سبکی نے طبقات کبریٰ میں لکھا ہے*
دھوپ اور گرمی کی شدت میں امام نے طلب علم کے لئے سفر فرمایا تو دوبارہ آپ کی بینائی ختم ہو گئی۔ خراساں پہنچنے پر آپ نے کسی حکیم حاذق کے مشورہ سے سر کے بال صاف کرائے اور گل خطمی کا ضماد کیا۔ اس سے اللہ پاک نے آپ کو شفائے کامل عطا فرمائی۔ دس سال کی عمر تھی کہ آپ مکتبی تعلیم سے فارغ ہو گئے۔ اور اسی ننھی عمر سے ہی آپ کو احادیث نبوی یاد کرنے کا شوق اجاگرہو گیا اور آپ مختلف حلقہ ہائے درس میں شرکت فرمانے لگے۔

*علامہ بیکندی علیہ الرحمہ*
ایک مشہور محدث بخارا ۔ فرمایا کرتے تھے کہ میرے حلقہ درس میں جب بھی محمد بن اسماعیل آجاتے ہیں مجھہ پر عالم تحیر طاری ہو جاتا ہے۔ ایک دن ان علامہ کی خدمت میں ایک بزرگ سلیم بن مجاہد حاضر ہوئے۔ آپ نے ان سے فرمایا کہ اگر تم ذرا پہلے آ جاتے تو ایک ایسا ہونہار نوجوان دیکھتے جسے ستر ہزار حدیثیں حفظ ہیں۔ سلیم بن مجاہد یہ سن کر حیرت زدہ ہو گئے۔ اور امام بخاری کی ملاقات کے اشتیاق میں نکلے۔ ملاقات ہوئی تو امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ نہ صرف ستر ہزار بلکہ ان سے بھی زائد احادیث مجھے یاد ہیں۔الحمد للہ بلکہ سلسلہ سند، حالات رجال سے جیسا بھی سوال کریں گے جواب دوں گا حتی کہ اقوال صحابہ و تابعین کے بارے میں بھی بتلا سکتا ہوں کہ وہ کن کن آیات قرآنی و احادیث نبوی سے ماخوذ ہیں۔

*جعفر بن محمد خطان*
کہتے ہیں کہ میں نے امام بخاری رحمہ اللہ سے سنا ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ میں نے ایک ہزار سے زائد اساتذہ سے احادیث سنی ہیں۔ اور میرے پاس جس قدر بھی احادیث کا ذخیرہ ہے ان کی سندیں اور رواة کے جمیع احوال مجھے محفوظ ہیں۔

*محدث ابوبکر بن ابی عتاب*
فرماتے ہیں کہ ہم سے امام بخاری نے حدیث لکھی اور اس وقت تک ان کی داڑھی مونچھ کے بال نہیں نکلے

*محمد بن ازہر سختیانی* وہ فرماتے ہیں کہ میں سیلمان بن حرب کی مجلس میں تھا اور امام بخاری ہمارے شریک درس تھے مگر احادیث کو قلمبند نہیں کرتے تھے۔ لوگوں نے اس پر استعجاب کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ بخارا جا کر اپنی یاد سے ان سب احادیث کو ضبط کر لیں گے۔سبحان اللہ

*یوسف بن موسیٰ مروزی*
کہتے ہیں کہ میں بصرہ کی جامع مسجد میں تھا کہ امام بخاری کی آمد کا اعلان کیا گیا۔ لوگ جوق در جوق آپ کی شایان شان استقبال کو جانے لگے جن میں میں بھی شامل ہوا۔ اس وقت امام بخاری عالم شباب میں تھے۔ آپ نے پہلے مسجد میں نماز ادا فرمائی پھر لوگوں نے ان کو درس حدیث کے لئے گھیر لیا۔ آپ نے دوسرے روز کے لئے درخواست منظور فرما لی۔ چنانچہ دوسرے دن بصرہ کے محدثین و حفاظ جمع ہوئے۔ آپ نے فرمایا کہ *بصرہ والو* ! آج کی مجلس میں تم کو اہل بصرہ ہی کی روایت پیش کروں گا جو تمہارے ہاں نہیں ہیں۔ پھر آپ نے اس حدیث کا املاء کرا دیا۔ *حدثنا عبدالله بن عثمان بن جبلة بن ابي رواد العقلي ببلدكم قال حدثني ابي عن شعبة عن منصور وغيره عن سالم بن ابي الجعد عن انس بن مالك ان اعرابيا جآءالي النبى صي الله عليه وسلم فقال يا رسول الله الرجل يحب القوم … الحديث* اور ارشاد فرمایا کہ اے اہل بصرہ یہ حدیث تمہارے پاس منصور کے واسطہ سے نہیں ہے۔ اور اسی شان کے ساتھ آپ نے گھنٹوں اس مجلس کو بہت سی احادیث املاء کرائیں اور حفظ احادیث پر ایک شاندار بیان و خطاب بھی فرمایا ۔
آپ کی قوت حافظہ و ذہانت سے متعلق بہت سے واقعات مورخین و محدثین نے نقل فرمائے ہیں ۔ جن کو جمع کیا جائے تو ایک مستقل کتاب تیار ہو سکتی ہے۔
بلکہ بر صغیر میں کچھ کتابیں اردو اور عربی میں اس پر لکھی گئیں اور لکھی جا رہی ہیں ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء

*خالد بن احمد ذہلی* حاکم بخارا نے ایک مرتبہ آپ کی خدمت میں درخواست بھیجی کہ آپ دربار شاہی میں تشریف لا کر مجھے اور میرے شہزادوں کو صحیح بخاری اور تاریخ کا درس دیں آپ نے قاصد کی زبانی کہلا بھیجا کہ میں آپ کے دربار میں آ کر شاہی خوشامدیوں کی فہرست میں اضافہ نہیں کرنا چاہتا اور نہ مجھے علم کی بے قدری گوارا ہے۔ حاکم نے دوبارہ کہلوایا کہ پھر شاہزادوں کے لئے کوئی وقت مخصوص فرما دیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ میراث نبوت میں کسی امیر غریب کا امتیاز نہیں ہے آپ کے شہزادے اگر آنا چاہتے ہیں تو میرے اوقات درس میں حاضر ہو جائیں ۔ اس لئے میں اس سے بھی معذور ہوں۔ اگر حاکم بخارا کو میرا یہ جواب ناگوار گزرے تو جبرا میرا درس حدیث روک سکتا ہے تاکہ میں اللہ تعالیٰ کے دربار میں عذر پیش کر سکوں۔ ان جوابات سے حاکم بخارا سخت برہم ہوا اور اس نے امام کو بخارا سے نکالنے کی سازشیں شروع کردی

*امام بخاری کی وفات*
حاکم بخارا خالد بن احمد ذہلی کی سازشیں کامیاب ہوئی چند علماء سو کے ساتھ ملکر آپ کر فساد عقائد کا الزام لگایا اور حفظ امن کے بہانے سے آپ کو شہر سے نکلوایا گیا
آپ شہر سے نکلتے وقت یہ دعا کی
اے اللہ! ان لوگوں نے میرے ساتھ جو ارادہ کیا تھا۔ وہی صورت حال ان کو اپنے اور ان کے اہل و عیال کے بارے میں دکھلا دے۔
ایک ماہ بھی نہ گزرا تھا کہ ذہلی امیر طاہر کے حکم سے معزول کر کے گدھے پر پھرایا گیا اور قید میں ڈال دیا گیا۔ اور حریث بن ابی ورقاء جو آپ کے نکلوانے میں سازشی اور حاکم کا الۂ کار تھا۔ اس کو اور اس کے گھر والوں کو سخت مصیبت پیش آئی۔ اور دوسرے مخالفین بھی اسی طرح غائب و خاسر ہوئے۔
آج پوری دنیا گھوم کو نہ کہیں حاکم بخارا کا نام ہے نہ ان علماء سو اور سازشی دنیا دار کا نام ہے مگر آج پوری دنیا میں امام بخاری کا ذکر ہے بلکہ آپ کی کتاب الصحیح البخاری علم کی سند ہے اس وقت تک سند نہیں ملتی جب تک بخاری نہ پڑھ لی جائے مدارس مساجد خانقاہیں جامعات جہاں جائیں گے آپ کو امام بخاری کا ذکر ژندہ و پائندہ ملے گا
*خرتنگ نامی* ایک گاؤں میں جو مضافات سمرقند سے ہے، آپ پہنچے ہی تھے کہ طبیعت خراب ہو گئی اور وہاں اپنے قریبی لوگوں میں اتر گئے۔ ایک رات آپ نے اللہ سے دعا کی کہ الٰہ العالمین اب زمین باوجود اس وسعت کے بخاری پر تنگ ہو گئی ہے بہتر ہے کہ تو مجھے اپنے پاس بلا لے۔
آخر کار ۶۳سال کی عمر میں یہ آفتاب حدیث خرتنگ کی زمین میں غائب ہو گیا *۔ انالله وانا اليه راجعون*

ابر کرم ان کے مرقد پر گہرباری کرے
حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے
ہزاروں رحمتیں ہوں امیر کارواں تجھ پر
فنا کے بعد بھی باقی ہے شان رہبری تیری